لبنان سے ایران کی رخصتی
روزنامہ نوائے وقت
02 October 2024
کسی ملک پر دوسرے ملک کا ، تاریخ کا سب سے انوکھا حملہ ہوا ہے۔ یعنی
اسرائیل نے لبنان کی حکومت سے باقاعدہ اجازت لے کر اس پر حملہ کیا ہے۔
اسرائیل نے جب حملے کا ارادہ کیا اور لبنانی حکومت کو اس سے آگاہ کیا تو
لبنانی حکومت نے کہا، ابھی نہیں، چند گھنٹے دو تاکہ ہم اپنی فوج اس علاقے
سے واپس بلا لیں جہاں پر نظر کرم ڈالنے کا آپ نے ارادہ فرمایا ہے۔ چنانچہ
اس مہلت کے اندر اندر لبنانی فوج دریائے سطانی سے بھی پیچھے چلی گئی اور
کہیں سے 5 کلومیٹر، کہیں سے دس کلومیٹر کا علاقہ خالی کر دیا۔ یہ حملے کا
پہلا مرحلہ ہے، اس کے بعد اسرائیل مزید آگے جائے گا اور اسرائیلی یہ اشارہ
دے رہے ہیں کہ اس بار وہ آپریشن کر کے واپس نہیں جائیں گے بلکہ مقبوضہ
گولان کی طرح اس علاقے کو بھی اسرائیل میں ضم کر لیں گے۔ لبنان کا نیا نقشہ
یعنی کہ جلد جاری ہونے والا ہے۔
حزب اللہ کی زمینی فورس زیادہ تر
لبنان سے نکل کر شام چلی گئی ہے البتہ اس کی راکٹ باری کرنے والی مشینری کے
بہت سے یونٹ بدستور لبنان میں موجود اور فعال ہیں۔ شام میں جانے والے حزبی
گوریلے مقامی آبادی کے مکانات پر قبضہ کر رہے ہیں، انہیں قتل اور زخمی کر
رہے ہیں۔ شام میں اس وقت مقامی آبادی بہت کم رہ گئی ہے۔ تین چوتھائی
آبادی یا تو شمال کے ’’آزاد‘‘ علاقے میں مقیم ہے یا پھر یورپی اور دوسرے
ملکوں کو ہجرت کر گئی ہے۔ بظاہر اب مزید مقامی آبادی کو مہاجرت کا سفر
کرنا ہو گا۔
ایک بہت بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ
(اصل میں تو امریکہ کے ساتھ) لبنانی حکومت کا ایک معاہدہ ہو گیا ہے جس کے
تحت لبنانی حکومت باقی ماندہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرے گی۔ یعنی اس کا
تنظیمی وجود رہے گا، فوجی وجود ختم کر دیا جائے گا۔ یہ کام لبنانی حکومت کے
بس کا نہیں ہے لیکن کیا یہ کیا جائے گا۔ مطلب آپ سمجھتے ہیں، لبنانی
حکومت کے پردے میں ہر کام امریکہ کرے گا۔ حتمی نتیجہ یہ کہ لبنان پر ایرانی
کنٹرول ختم۔
اسرائیل نے ایران میں ’’رجیم چینج‘‘ کی پیشگی خبر سنائی
ہے۔ مطلب یہ کہ امریکہ اب اسرائیل کے پردے میں ایران کے ساتھ کوئی بڑی
واردات ڈالنے والا ہے۔ حوثیوں پر مسلسل حملے ان کی کمزوری اور نتیجتاً
شمالی یمن میں عوامی سطح پر بے چینی بلکہ انارکی کی طرف لے جائیں گے جس کا
فائدہ سعودی اتحاد اٹھا سکتا ہے جس نے پہلے ہی الحدیدہ کی بندرگاہ کا تین
طرف سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ شمالی یمن کا جنوبی حصہ ، تعز کے شہر تک ، پہلے
ہی سعودی اتحاد کے قبضے میں ہے۔
ہمارے ہاں کے دانشور تیسری جنگ عظیم کی
خبر دے رہے ہیں۔ کسی بھی جنگ یا عالمی جنگ کیلئے ایک سے زیادہ فریقوں کی
ضرورت ہوا کرتی ہے۔ یہاں دوسرا فریق کہاں ہے، یہ دانشور حضرات ذرا بتا دیں
تو مہربانی ہو گی۔ ایران نے ، بزبان خود اعلان کر دیا ہے کہ وہ جنگ سے ڈرتا
نہیں ہے لیکن جنگ کرے گا نہیں کیونکہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں۔ پرویز
مشرف یاد آ گئے، فرمایا کرتے تھے ، کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں، (بس امریکہ
کا فون آنے پر لیٹ جایا کرتا ہوں)۔
ایران جنگ نہیں کرنا چاہتا، وہ
جنگ کر بھی نہیں سکتا۔ جس ملک کے پاس فضائی دفاع کا نظام ہی نہ ہو اور جو
ملک دشمن ملک پر ہزاروں ڈرون اور میزائل داغے اور وہ سب کے سب آتش بازی کے
پٹاخے ثابت ہوں ، وہ جنگ کر بھی نہیں سکتا۔ چنانچہ فی الحال تیسری عالمی
جنگ کے امکان کا لطیفہ سنانے کا وقت نہیں ہے۔ اسرائیل غزہ کے بعد لبنانیوں
کے قتل عام بلکہ نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ اس کا پلہ، جہاں بھی گرے گا،
لبنانی مرے گا چاہے وہ شیعہ ہو عیسائی ہو یا سنّی ہو۔ یہودی نہیں مرے گا
اور اسرائیل کیلئے آئیڈیل صورت حال یہ بھی ہے کہ امریکہ برطانیہ روس چین
ترکی عرب ممالک سمیت سب متعلقہ طاقتیں اس کی لپیٹ پر ہیں۔ کچھ کھلی حمایت
کے اعلانات کے ساتھ، باقی مذمت کے پردہ نفاق کے پیچھے سے۔ ہمارے ہاں البتہ
ایسے سنہرے خواب دکھانے والے موجود ہیں کہ روس اور چین نے اپنی فوج روانہ
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تازہ اطلاع یہ ہے کہ ایران نے امریکہ کو یقین
دلایا ہے کہ وہ اپنے گوریلے لبنان میں بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
گویا
ایک اور فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔
https://youtu.be/-gw1qsbZhbA?si=QK2xswU2ujs21Cre
Comments
Post a Comment